زنا بالجبر کی سزا کے بارے میں فقہا کا موقف - سید منظور الحسن

زنا بالجبر کی سزا کے بارے میں فقہا کا موقف

 

ڈاکٹر محمد مشتاق اور جناب حسن الیاس کی بحث کے تناظر میں

زنا بالجبر یا زنا بالاکراہ کے بارے میں ہمارے فقہا کا عمومی موقف یہ ہے کہ یہ زنا ہی کی ایک قسم ہے اور اس کے لیے شریعت میں وہی سزا ہے جو اس کی ایک دوسری قسم زنابالرضا کے لیے مقرر ہے۔ چنانچہ یہ زنا بالرضا ہی کی طرح مستوجب حد ہے جس کی شرعی سزا سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ کے مطابق سو کوڑے ہے۔ تاہم، یہ سزا اس کے غیر شادی شدہ مرتکب کے لیے ہے۔ جہاں تک شادی شدہ مجرم کا تعلق ہے تو زنا بالرضا ہو یا زنابالجبر، ہر دو صورتوں میں اُس کے لیے رجم یعنی سنگ ساری کی سزا ہے۔ سو کوڑے کی طرح یہ بھی شرعی حد ہے جو سنت متواترہ سے ثابت ہے۔ حدود کی یہ سزائیں زنا بالرضا کے دونوں فریقین کے لیے ہیں، البتہ زنا بالجبر میں ان کا مستحق صرف جبر کرنے والا فریق ہے، جبر کا شکار ہونے والا فریق ان سے مستثنیٰ ہے۔ زنا بالجبر کے ثبوت کا معیار چار مسلمان مرد گواہوں کی عینی شہادت ہے۔ بعینہ یہی معیارزنا بالرضا کے ثبوت کے لیے بھی ہے۔ چار چشم دید مسلمان گواہ اگر میسر ہوں تو کوڑے یا رجم کی حد کا نفاذ ہوگا، بصورت دیگر یہ حدود نافذ نہیں کیے جائیں گے۔ اس سے واضح ہے کہ ثبوت جرم اور نفاذ حدود کے اعتبار سے زنا بالجبر اور زنا بالرضا میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو معیارات ثبوت اور جو شرعی حدودز نا بالرضا کے لیے قائم ہیں، وہی زنا بالجبر کے لیے بھی مقرر ہیں۔

زنا بالجبر اور اس کی سزا کے حوالے سے یہ فقہا کا عمومی موقف ہے۔ دور حاضر میں فقہ حنفی کے جید عالم دین مولانا مفتی تقی عثمانی نے پاکستان میں حدود آرڈیننس کی بحث کے تناظر میں اسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

۱۔ قرآن کریم نے سورہ نور کی دوسری آیت میں زنا کی حد بیان فرمائی ہے:

’’جو عورت زنا کرے، اور جو مرد زنا کرے، ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاو ٔ۔ ‘‘(النور:۲)

اس آیت میں ”زنا“ کا لفظ مطلق ہے جو ہر قسم کے زنا کو شامل ہے، اس میں رضا مندی سے کیا ہوا زنا بھی داخل ہے، اور زبردستی کیا ہوا زنا بھی۔ بلکہ یہ عقلِ عام (Common Sense)کی بات ہے کہ زنا بالجبر کا جرم رضا مندی سے کیے ہوئے زنا سے زیادہ سنگین جرم ہے، لہٰذا اگر رضا مندی کی صورت میں یہ حد عائد ہو رہی ہے تو جبر کی صورت میں اس کا اطلاق او ر زیادہ قوت کے ساتھ ہوگا۔

اگرچہ اس آیت میں ”زنا کرنے والی عورت“ کا بھی ذکر ہے، لیکن خود سورہ نور ہی میں آگے چل کر اُن خواتین کو سزا سے مستثنیٰ کر دیا گیا ہے جن کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو، چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے:

’’اور جوان خواتین پر زبردستی کرے تو اللہ تعالیٰ ان کی زبردستی کے بعد (ان خواتین) کو بہت بخشنے والا، بہت مہربان ہے۔ ‘‘(النور ۳۳)

اس سے واضح ہو گیا کہ جس عورت کے ساتھ زبردستی ہوئی ہو، اسے سزا نہیں دی جا سکتی البتہ جس نے اس کے ساتھ زبردستی کی ہے، اس کے بارے میں زنا کی وہ حد جو سورہ نور کی آیت نمبر ۲ میں بیان کی گئی تھی، پوری طرح نافذ رہے گی۔

۲۔ سو کوڑوں کی مذکورہ بالا سزا غیر شادی شدہ اشخاص کے لیے ہے، سنت متواترہ نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر مجرم شادی شدہ ہو تو اسے سنگ سار کیا جائے گا اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگ ساری کی یہ حد جس طرح رضا مندی سے کیے ہوئے زنا پر جاری فرمائی، اسی طرح زنا بالجبر پر بھی جاری فرمائی۔ .....لہٰذا قرآن کریم، سنت نبویہ علی صاحبہا السلام اور خلفاءراشدین کے فیصلوں سے یہ بات کسی شبہہ کے بغیر ثابت ہے کہ زنا کی حد جس طرح رضا مندی کی صورت میں لازم ہے، اسی طرح زنا بالجبر کی صورت میں بھی لازم ہے، اور یہ کہنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ قرآن وسنت نے زنا کی جو حد (شرعی سزا) مقرر کی ہے وہ صرف رضا مندی کی صورت میں لاگو ہوتی ہے، جبر کی صورت میں اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ “ (حدود آرڈیننس ایک علمی جائزہ، ص 22تا 23) ”حدود آرڈیننس میں احکام یہ تھے کہ اگرزنا پر شرعی اصول کے مطابق چار گواہ موجود ہوں تو آرڈیننس کی دفعہ ۵ کے تحت مجرم پر زنا کی حد(شرعی سزا) جاری ہو گی۔ “( حدود آرڈیننس ایک علمی جائزہ، ص26)

فقہا کے اس موقف سے یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ حدود شریعت میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر کے جرائم، اُن کے ثبوت اور اُن کی سزا میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ چنانچہ اگر کوئی غیر شادی شدہ شخص کسی خاتون، کسی لڑکی یا کسی کم سن بچی کے ساتھ جبراً فعل شنیع کا ارتکاب کرتا ہے اور اُس کا یہ جرم چار مسلمان گواہوں کی عینی شہادت سے پایۂ ثبوت تک پہنچ جاتا ہے تو اس پر شرعی حدود کے مطابق سو کوڑے کی سزا نافذ ہو گی۔

استاذ گرامی جناب جاوید احمد غامدی کے نزدیک یہ موقف شریعت اسلامی کی صحیح تعبیر پر مبنی نہیں ہے۔ اس میں نوعیت جرم، معیار ثبوت اور نفاذ حدود، تینوں اعتبارات سے بعض ایسے اسقام ہیں کہ جن کی موجودگی میں شریعت کا منشا و مقصود کما حقہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ استاذ گرامی کی یہی وہ تنقیدہے کہ جس کے بعض پہلوؤں کو ادارۂ علم و تحقیق المورد کے اسکالر برادرم حسن الیاس نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں نمایاں کیا ہے۔ اس میں انھوں نے قصور کی سات سالہ معصوم زینب سے زیادتی اور قتل کے اندوہ ناک واقعے کے حوالے سے یہ بیا ن کیا ہے کہ اگر زینب زندہ بچ جاتی اور اس کے ساتھ زیادتی کا جرم چار گواہوں کی شہادت سے ثابت ہو جاتا تو ہماری فقہ کے مطابق مجرم پر وہی سو کوڑے کی حد نافذ کی جاتی جو زنابالرضا کے مجرم کے لیے مقرر ہے۔ ”اگر زینب زندہ ہوتی“ کے زیر عنوان یہ تحریر ایک محاکاتی المیہ ہے جس میں مکالمے کی صورت میں فقہی موقف کے بعض اسقام کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔

حسن الیاس صاحب نے اس بحث کو جس موقع پر اٹھایا ہے اور اس کے لیے جو پیرایۂ بیان اختیار کیا ہے، اس پر یقیناً دو رائیں ہو سکتی ہیں، لیکن جہاں تک اس کی سماجی حساسیت اورعلمی ضرورت کا تعلق ہے تو دین کے سنجیدہ طالب علموں کے لیے اس سے مفر ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے اس تحریر کا غیر معمولی نوٹس لیا ہے اور اس پر اپنے اتفاق واختلاف اور تحسین و تنقید کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ اس ضمن میں سب سے نمایاں بحث انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکے فاضل استاد اور ہمارے برادر مکرم ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ ”فقہ اور اصول فقہ کے متعلق جہل مرکب کا شاہ کار“ اور ’’جنسی تشدد زنا کی قسم نہیں ہے‘‘ کے زیر عنوان انھوں نے اپنے ابتدائی مضامین میں حسن صاحب کے تمام مقدمات کی تغلیط کی ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ وہ فقہا کے نقطۂ نظر کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔

برادرم مشتاق صاحب نے نقد و جرح کے لیے بالعموم طنز و تعریض اور تنقیص و تضحیک کا پیرایہ اختیار کیا ہے۔ یہ ظاہرہے کہ اُن کے علمی مرتبے کے شایان شان نہیں ہے۔ اُن کاتعارف علوم اسلامی کے ایک معلم، فقہ حنفی کے ایک ماہر اور دین کے ایک مخلص داعی کا ہے۔ یہ تعارف عامیانہ کے بجائے عالمانہ اسلوب کلام کا تقاضا کرتا ہے۔ بہرحال، اس سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر اُن کی تحریروں کے نفس مضمون کا جائزہ لیا جائے تو انھوں نے یہ نے بیان کیا ہے کہ فقہا کے نزدیک زنا بالجبر، زنا کا جرم ہی نہیں ہے، یہ جنسی تشدد کی ایک قسم ہے جس میں اکراہ شامل ہے۔ اس اعتبار سے یہ فساد کا جرم ہے۔ ربا اور دیگر متعدد جرائم کی طرح اس کی سزا بھی قرآن مجید نے مقرر نہیں کی۔ اس لیے فقہا اسے شرعی حدود کے تحت نہیں، بلکہ سیاسۃ شریعۃ کے تحت زیر بحث لاتے ہیں۔ وہ اس کے ثبوت کے لیے اقراریاشہادت کو ضروری قرار نہیں دیتے، بلکہ حالات و قرائن ہی کی بنا پر اسے ثابت مانتے ہیں۔ جہاں تک اس کی سزا کا تعلق ہے تو فقہا اس پر حدود یعنی سو کوڑے یا رجم کی سزائیں نافذ نہیں کرتے۔ ان کے بجائے وہ قاضی یا حکمران کو یہ حق دیتے ہیں کہ اپنی صواب دید کے مطابق جو چاہے سخت سے سخت سزا نافذ کرے۔ جرم کی شدت اور شناعت کے لحاظ سے یہ موت کی سزا بھی ہو سکتی ہے۔ مشتاق صاحب کے مضامین کے درج ذیل مقامات اسی موقف کو واضح کرتے ہیں:

’’.....(اما م سرخسی کی کتاب المبسوط کے مطابق) فساد کے جرم پر عبرت ناک طریقے سے سزاے موت دینے کا اختیار حکمران اور قاضی کے پاس ہے اور اس کے ثبوت کےلیے اقرار یا گواہی ضروری نہیں بلکہ قرائن بھی کافی ہوتے ہیں۔ ..... فقہ کی رو سے بچی پر تشدد کی بدترین قسم کا ارتکاب کیا گیا ہے جس پر فقہی قواعد کی رو سے حدود اور قصاص کے بجاے فقہی تصور "سیاسہ" کا اطلاق ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس شنیع ترین جرم کا ارتکاب کرنے والے بدبخت کو بدترین سزا دینا لازم ہے۔ .....ا س معصوم بچی کے ساتھ پیش آیا ہوا واقعہ حدِ زنا کا مسئلہ ہے ہی نہیں، بلکہ یہ فساد کی بدترین قسم ہے جس کے لیے فقہاے کرام "سیاسہ" کے تصور کی رو سے قاضی کےلیے یہ اختیار مانتے ہیں کہ وہ قرائن اور جدید ترین ذرائع سے میسر آنے والے ثبوتوں کی روشنی میں مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے کہ پھر کسی کو اس طرح کے جرم کے ارتکاب کی جرات ہی نہ ہوسکے۔ .....جنسی تشدد زنا کی قسم نہیں ہے، نہ ہی اس کےلیے معیار ثبوت زنا کا ہے۔ ..... فقہائے کرام کی ساری بحث باہمی رضامندی سے کیے جانے والے زنا سے متعلق ہے۔ اکراہ کا ذکر اس میں دیگر اثرات کا جائزہ لینے کےلیے آیا ہے۔ .....جب جنسی تشدد کا جرم زنا کے جرم سے الگ جرم ہے، اور اس پر سیاسہ کے اصول کا اطلاق ہوتا ہے تو پھر اس کے ثبوت کےلیے چار گواہوں کی شرط بھی ضروری نہیں ہے، اور اس کی سزا بھی سو کوڑے یا رجم کے علاوہ کچھ اور شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ‘‘(دلیل ) مشتاق صاحب کے اس فہم پر حسن الیاس صاحب نے اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے سے اس بات پر اصرار کیا ہےکہ اس موقف کو فقہا سے منسوب کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے، فقہا کا موقف وہی ہے جس کی عکاسی انھوں نے اپنے ابتدائی مضمون میں کی ہے۔ اپنی بات کی دلیل کے طور پرانھوں نے امام ابن عبدالبر اور امام سرخسی کے درج ذیل اقتباسات کو بھی پیش کیا ہے:

’’علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ زبردستی اور جبراً زنا کرنے والا موجب حد ہے، اگر اس پر گواہیاں پیش کر دی جائیں، وہ گواہیاں جو حد کو لازم کرتی ہیں۔ یا پھر وہ آدمی خود اس کا اقرار کر لے۔ (ابن عبد البر، الاستذکار ج ۷ صفحہ ۱۴۶) جب گواہ اس بات پرقائم ہوجائیں کہ اس مرد نے اس خاتون کو مجبور کر کے اس کے ساتھ واقعتا ًزنا کیا ہے تو اس مرد کو حد لگائی جائے گی۔ عورت کو نہیں لگائی جائے گی۔ (السرخسی، المبسوط، ج 9، ص 54)‘‘(دلیل، فیس بک)

اس بحث و مکالمے کے ضمن میں میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ مشتاق صاحب نے زنا بالجبر کی سزا کے حوالے سے جو بات فقہا کی نسبت سے بیان کی ہے، اُسے کسی طرح بھی فقہا کے موقف کی ترجمانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید برآں اس سے اُن اعتراضات کی تردید بھی نہیں ہوتی جو حسن الیاس صاحب نے اپنے مضمون میں اٹھائے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ طرفہ تماشا ہے کہ زنا بالجبر کو زنا سے الگ کرنے، اسے فساد قرار دینے، اسے چار گواہوں کے بجائے حالات و قرائن سے ثابت ماننے اور مجرم کے لیے قتل تک کی عبرت ناک سزا مقرر کرنے کا جو نقطۂ نظر انھوں نے جوابی طور پر پیش کیا گیا ہے، وہ نتائج کے اعتبار سے فقہا کے بجائے مدرسہ فراہی کے موقف کے زیادہ قریب ہے۔ اس لیے ان تحریروں کے مطالعے سے بظاہر یہ تاثر قائم ہو تاہے کہ ان میں حسن الیاس صاحب کے نقد کی تائید کی گئی ہے، مگر اس کے لیے تردید کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے، اور فقہا کے موقف کی تردید کی گئی ہے، مگر اس کے لیے تائید کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے۔

یہ تاثر کیسے قائم ہوتاہے، اس کودو سوالوں کے جواب میں آرا کے تقابل سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ کیا فقہا زنا بالجبر کو زنا بالرضا سے الگ جرم تصور کرتے ہیں؟

حسن الیاس صاحب کے فہم کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے۔ یعنی وہ ان دونوں کو اصلاً ایک ہی نوعیت کا جرم گردانتے ہیں۔ چنانچہ مذکورہ تحریر میں انھوں نے لکھا ہے:

”فقہ اسلامی کی روشنی میں زنا بالجبر، زنا کے علاوہ کوئی الگ جرم نہیں ہے، زنا زنا ہی ہوتا ہے، چاہے جبراً ہو یا مشاورت سے۔ “

مفتی تقی عثمانی صاحب کے درج ذیل بیان سے یہی بات ثابت ہوتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

” (سورہ ٔ نور کی)اس آیت میں ”زنا“ کا لفظ مطلق ہے جو ہر قسم کے زنا کو شامل ہے، اس میں رضا مندی سے کیا ہوا زنا بھی داخل ہے، اور زبردستی کیا ہوا زنا بھی۔ “

مشتاق صاحب اس کی واضح تردید کرتے ہیں۔ اپنے مضامین میں مختلف مقامات پر انھوں نے لکھا ہے:

”زنا بالجبر زنا کی قسم نہیں، بلکہ جنسی تشدد کی قسم ہے، اکراہ کی قسم ہے۔ “

”جنسی تشدد کا جرم زنا کے جرم سے الگ جرم ہے۔ “

”بچی کے ساتھ کی گئی زیادتی فقہ کی رو سے زنا کی تعریف میں ہی نہیں آتی۔ “

دوسرا سوال یہ ہے کہ زنا بالجبر کی صورت میں اگر حد کے شرائط پورے ہو ں تو کیا اس صورت میں فقہا کے نزدیک حد نافذ ہو گی؟

حسن الیاس صاحب کے مضمون میں اس کا جواب اثبات میں ہے:

” فقہ اسلامی اور شریعت اسلامی کی روشنی میں زینب کے ساتھ زنا کے مجرم کو (سورہ نور کی مقرر کردہ حد یعنی) سو کوڑے مارنے کی سزا سنائی جاتی ہے۔ “

مفتی تقی عثمانی صاحب کے درج ذیل الفاظ سے بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے:

” جس عورت کے ساتھ زبردستی ہوئی ہو، اسے سزا نہیں دی جا سکتی البتہ جس نے اس کے ساتھ زبردستی کی ہے، اس کے بارے میں زنا کی(سو کوڑے کی)وہ حد جو سورۂ نور کی آیت نمبر ۲ میں بیان کی گئی تھی، پوری طرح نافذ رہے گی۔ ۔ ۔ قرآن کریم، سنت نبویہ علی صاحبہا السلام اور خلفاءراشدین کے فیصلوں سے یہ بات کسی شبہہ کے بغیر ثابت ہے کہ زنا کی حد جس طرح رضا مندی کی صورت میں لازم ہے، اسی طرح زنا بالجبر کی صورت میں بھی لازم ہے۔ “

مگر مشتاق صاحب کا بیان اس کے برعکس ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

”جب جنسی تشدد کا جرم زنا کے جرم سے الگ جرم ہے اور اس پر سیاسہ کے اصول کا اطلا ق ہوتا ہے تو پھر اس کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی شرط بھی ضروری نہیں ہے اور اس کی سزا بھی سو کوڑے یا رجم کے علاوہ کچھ اور شکل اختیار کر سکتی ہے۔ “

”اس معصوم بچی کے ساتھ پیش آیا ہوا واقعہ حد زنا کا مسئلہ ہے ہی نہیں، بلکہ یہ فساد کی بدترین قسم ہے، جس کے لیے فقہائے کرام ”سیاسہ“ کے تصور کی رو سے قاضی کے لیے یہ اختیار مانتے ہیں کہ وہ قرائن اور جدید ترین ذرائع سے میسر آنے والے ثبوتوں کی روشنی میں مجرم کو ایسی عبرت ناک سزا دے کہ پھر کسی کو اس طرح کے جرم کے ارتکاب کی جرات ہی نہ ہو سکے۔ “

اس تقابل سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ زنا بالجبر کے حوالے سے فقہا کا موقف وہی ہے جسے حسن الیاس صاحب نے سمجھا ہے اور جو مفتی تقی عثمانی صاحب کے اقتباسات سے ثابت ہے۔ یہی موقف پاکستان میں فقہ حنفی کے نمائندہ علما کا متفقہ موقف ہے۔ ۲۰۰۶ میں حقوق نسواں بل کی بحث کے موقع پر مفتی تقی عثمانی، مولانا زاہدالراشدی، مفتی منیب الرحمن، قاری حنیف جالندھری، مولانا حسن جان، ڈاکٹر سرفراز نعیمی اور بعض دیگر علما نے یہ موقف ان الفاظ میں بیان کیا تھا:

”زنا بالجبر اگر حد کی شرائط کے ساتھ ثابت ہو جائے تو اس پر حد زنا جاری کی جائے گی۔ “(ماہنامہ الشریعہ، اکتوبر ۲۰۰۶)

اس جملے کے معنی یہ ہیں کہ یہ علما: ۱۔ زنا بالجبر کی اصطلاح کو قبول کرتے ہیں؛ ۲۔ اسے زنا ہی کی ایک صورت تصور کرتے ہیں؛ ۳۔ اس کے ثبوت کے لیے حد ہی کی شرائط یعنی مجرم کے اقرار یا چار مسلمان گواہوں کی شہادت کو تسلیم کرتے ہیں اور ۴۔ اس پرزنا (بالرضا) ہی کی حد یعنی سو کوڑے یا رجم کی سزا نافذ کرتے ہیں۔

چنانچہ علما و فقہا کے اس موقف اور مشتاق صاحب کی رائے کا اگر تقابلی تجزیہ کیا جائے تو واضح ہو گا کہ:

فقہ حنفی کے اکابرین یہ کہتے ہیں کہ زنا بالجبر زنا ہی کی ایک صورت ہے، جبکہ مشتاق صاحب کہتے ہیں کہ زنا بالجبر زنا کی قسم نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ حدود کے دائرے کا جرم ہے، جبکہ مشتاق صاحب کہتے ہیں کہ یہ حدود کے دائرے کا نہیں، بلکہ سیاسہ کے دائرے کا جرم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ جرم مجرم کے اقرار یا چار مسلمان گواہوں کی شہادت سے ثابت ہو گا، جبکہ مشتاق صاحب کہتے ہیں کہ یہ حالات و قرائن سے ثابت ہو گا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس پر زنا (بالرضا) ہی کی حد یعنی سو کوڑے یا رجم کی سزا نافذ ہو گی، مشتاق صاحب کہتے ہیں کہ نہیں اس پر سو کوڑے یا رجم کی سزا کے علاوہ کوئی اور سزا نافذ ہو گی۔

اگر صورت معاملہ یہی ہے توپھر یہ کوئی بہت بڑا مغالطہ ہے جس کا شکار مشتاق صاحب ہوئے ہیں یا بصورت دیگر قارئین کا حد درجہ سوئے فہم ہے کہ وہ مشتاق صاحب کی بات کا مفہوم اُن کے مدعا کے برعکس سمجھ رہے ہیں۔ بہرحال اس الجھن کو سلجھانا اب مشتاق صاحب ہی کی ذمہ داری ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر ہمارا اور قارئین کا فہم درست ہے تو مشتاق صاحب کو کوئی خلط مبحث پیدا کیے بغیر پوری وضاحت سے یہ بیان کرنا چاہیے کہ فقہا کا عمومی موقف تو وہی ہے جو حسن الیاس صاحب نے سمجھا ہے، مگر وہ اُس سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنے علم و تحقیق اور اپنے دلائل کی بنیاد پر اس مسئلے کو مختلف زاویۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اگر اُن کے نزدیک ایسا نہیں ہے تو پھر اُن کو اپنی بات ثابت کرنے کے لیے توضیح و تنقیح کے کچھ مزید مراحل سے گزرنا چاہیے۔ اس ضمن میں دو نہایت سادہ سوالوں پر اُن کے متعین اور مختصر جواب نہ صرف اُس تناقض اور ابہام کو دور کر سکتے ہیں جو بادی النظر میں اُن کی تحریروں سے پیدا ہو رہا ہے، بلکہ باہمی ابلاغ مدعا میں معاون ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہیں:

۱۔ حسن الیاس صاحب کی مفروضہ صورت کے مطابق اگر زینب کو کسی غیر شادی شدہ شخص نے ظلم کا نشانہ بنا کر قتل کیے بغیر چھوڑ دیا ہوتا اورچار چشم دید گواہ زنابالجبر کی شہادت دے دیتے تو فقہا کے موقف کے مطابق اس جرم کو کس لفظ یا اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا اور مجرم پر کون سی سزا نافذکی جاتی؟

۲۔ فقہا کا مختار اگر موقف وہی ہے جسے مشتاق صاحب نے سیاسہ کے زیر عنوان بیان کیا ہے اور جس کے مطابق زبردستی کیے گئے زنا پر نہ زنا کا اطلاق ہوتا اور نہ اس کے حدود کا تو پھر وہ موقف کس کا ہے جو مفتی تقی عثمانی، مولانا زاہد الرشدی، مفتی منیب الرحمن اور بعض دیگر جید حنفی علما کے حوالے سے اوپر نقل ہوا ہے اور جس کے مطابق زبردستی کیے گئے زنا پر زنا اور اس کے حدود ہی کا اطلاق ہوتا ہے؟

 __________

بشکریہ دلیل ڈاٹ پی کے
مصنف : سید منظور الحسن
Uploaded on : Jan 21, 2018
32147 View