نہیں معلوم سرزمینِ فلسطین پر شبِ قدر اتر چکی یا نہیں؟ ہزاروں قدسیوں کے ساتھ جبریلِ امین کا نزول ہو چکا یا نہیں؟یہ فیصلوں کی رات ہے،کیا معلوم عالم کے پروردگار نے اس رات اہلِ فلسطین کے مقدر میں کیا لکھاہے؟اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ یہ رات طلوعِ فجر تک سلامتی ہے۔اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے؟رمضان کی گزری شبوں میں، ایک رات تو کیا، فلسطینیوں کو سلامتی کی ایک گھڑی تک نصیب نہیں ہو ئی۔دہشت ہے، خوف ہے اور بے بسی ہے۔تو کیا وہ رات ابھی نہیں آئی؟ یا پھر ہم اس کی حقیقت سے بے خبر ہیں؟کیا لازم ہے کہ یہ ہر رمضان کے آخری عشرے میں ہو تی ہو؟میں نہیں جانتا؟ کوئی نہیں جانتا ۔اس رات کے راز تو امورِ متشابہات، میں سے ہیں۔
ایک بات البتہ ایسی ہے جو محکم ہے۔جبریل ِامین کے لیے یہ سرزمین اجنبی نہیں۔وہ بار ہا فلسطین آئے ہیں،بنی اسرائیل کے انبیا کی طرف اللہ کا پیغام لے کر۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کیسے عالم کے پروردگار نے یہود کے ساتھ ایک عہد باندھا اور انہیں دنیا کی امامت عطا کی۔ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ کیسے یہودیوں نے اس پیمان کو توڑا۔کیسے اللہ کے احکام کا مذاق اڑایا۔ کیسے اپنے اعمال سے نافرمانی کی تاریخ لکھی۔کیسے نعمت کی ناشکری کی۔کیسے نبیوں کو قتل کیا۔جبریلِ امین نے وہ منظر بھی دیکھا ہوگا جب یہیں کہیں،ایک رقاصہ کی فرمائش پر اللہ کے پیغمبر کا سر کاٹ کر اس کے حضور میں پیش کر دیا گیا۔ فرشتوں نے ان یہودیوں کو دیکھا ہو گا جب انہوں نے سید ہ مریمؑ کے دامنِ عفت کی طرف اپنے ناپاک ہاتھ بڑھائے تھے۔پھرانہوں نے گہوارے میں سیدنا مسیحؑ کو کلام کرتے اور اپنی ماں کی پاک دامنی کی گواہی دیتے سنا ہو گا کہ ''میں اللہ کا بندہ ہوں اور صاحبِ کتاب ہوں‘‘۔ یقیناً جبریل نے ان یہودیوں کے ہاتھوں،سید نا مسیحؑ کو مصلوب ہو تے بھی دیکھا ہو گا۔یہ الگ بات کہ اللہ نے ایسا نہیں ہو نے دیا ۔وہ فردِ جرم بھی جبریل ہی لے کر آئے تھے جو اس زمین و آسمان کے خالق نے ان یہود کے خلاف مرتب کی تھی۔وہ خطبے بھی تو الہامی ہیں جو سیدنا مسیحؑ نے ان یہود کے خلاف دیے اور انجیل کے صفحات میں آج بھی محفوظ ہیں۔جبریلِ امین سے بڑھ کر کون گواہ ہے کہ کیسے اللہ نے یہودیوں کو ان جرائم کے بعد منصبِ امامت سے معزول کیا اور ذلت و مسکنت کو ان پر مسلط کر دیا، قیامت کی صبح تک۔
اس سے بڑھ کر ذلت کیا ہو گی کہ آج دنیا کا ہر باضمیر انسان ان کے مظالم کی مذمت کر رہا ہے۔وہ طاقت رکھتے ہوئے بھی خوف کے سائے میں جیتے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ ان کا وجود عالمِ مسیحیت کے رحم و کرم پر ہے۔آج ان کے سر سے امریکہ اور بر طانیہ کا ہاتھ اٹھ جائے تو وہ چند دنوں میں قصہ پا رینہ بن جائیں۔ حیرت ہے ان مسیحیوں پر جو آستینوں میں سانپ پا لتے ہیں۔مریمؑ اور مسیحؑ کو مانتے ہیں اور ان کو گالی دینے والوں کو عزیز رکھتے ہیں۔ مجھے حیرت ہے بنی اسماعیل اور اس کے پیروکاروں پر جو خیال کرتے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کا قانون اور ہو گا اور بنی اسرائیل کے لیے اور۔کیا وہ اللہ کے چہیتے ہیں؟ یہ زعم تو یہود کو بھی تھا۔عالم کے پر وردگار نے لکھا اور قیامت تک محفوظ کر دیا کہ '' میرا عہد ظالموں کے لیے نہیں ہے۔‘‘
یہ بنی اسماعیل کون ہیں؟وہی جنہیں منصب ِ امامت عطا کیا گیا۔ یہود معزول ہوئے تو اللہ نے پھر بنی اسماعیل سے ایک پیغمبر کو اٹھا یا۔آ خری رسول محمد ﷺ۔ان پر نبوت تمام ہو گئی، اس لیے پورے عالم کے لیے اللہ کے رسول ہیں۔رسول کا مطلب ہے اس زمین پر اللہ کی عدالت۔یہ عدالت برپا ہوئی اور دنیا نے اپنی آ نکھوں سے دیکھا۔اللہ کا دین سرزمینِ عرب پر غالب آیا۔زمین ان کے لیے مسخر ہو گئی اور آ سمان کی رحمتیں ان پر ظہور کر نے لگیں۔یہ اسی نعمت کااظہار تھا جب اپنے محل کی چھت پرٹہلتے ہوئے،ہارون الرشیدکی نظر پڑی کہ آسمان کی وسعتوں میں بادل کا ایک ٹکڑااڑا جارہاہے۔دیکھاکہ بغداد کی سرزمین کو سیراب کرنے سے گریزاں ہے۔ایک عالمی طاقت کا سربراہ مسکرا اٹھا۔ابر کو مخاطب کیا: ''ہم سے کیسا گریز؟زمین کے جس حصے پر برسو گے، وہاں اگنے والے اناج کا خراج تو بغدادہی آئے گا۔‘‘
یہ وہ دور تھا جب مسلمان حکمرانوں کے حرم کنیزوں سے آباد ہوچکے تھے۔جن کے صدقے یہ اقتدار ملا تھا، انہیں آ سودۂ خاک ہوئے سو سال ہونے کو تھے۔ان کی کوئی روایت باقی نہیں تھی۔بنی اسماعیل نے بنی اسرائیل کے نقوشِ پا پر اپنا قدم رکھ دیا تھا۔کہتے ہیں کہ جہاں سے دریا گزر جا تاہے، وہاںمدتوں نمی رہتی ہے۔یہ وہی' نمی ‘تھی جس نے ہارون کو بادلوں سے ہم کلا م ہو نے کا شرف بخشا تھا۔عربوں کو یہ بات اب کم کم یاد آتی تھی کہ وہ منصبِ امامت پر فائز کئے گئے ہیں اور اللہ کے پیغام کے وارث ہیں۔ان کا اصل منصب شہادتِ حق ہے۔یہ منصب انہیں اللہ نے سو نپا ہے،جس طرح بنی اسرائیل کو سونپا تھا۔جو بات ابوبکر وعمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم نے ہمیشہ یاد رکھی، اب ابو حنیفہؒ، مالکؒ اور احمد ابنِ حنبلؒ جیسے چنداہلِ علم ہی کو یاد رہی۔ وہ حکمرانوں کو انذار کرتے رہے ا ور عامتہ الناس کو بھی۔کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔
پھر کیا ہوا؟عربوں کا اقتدار سمٹنے لگا۔کعبے کو تو صنم خانوں سے پاسبان مل گئے لیکن اصلاً جن پر یہ ذمہ داری ڈالی گئی تھی،ان پر دوسری اقوام مسلط کر دی گئیں۔وہ اپنی ہی سرزمین پر اجنبی ہو گئے۔ زوال نے سوچ کو بدل دیا کہ 'غلامی میںبدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر‘۔ اب وہ عرب و عجم کی تقسیم کے اسیر تھے۔عثمانیوں کی خلافت؟اہلِ عجم؟مسیحیت کے نمائندوں سے مل کر حصول اقتدار کی ایک نئی بساط بچھائی گئی اورپھرہمیں اس بساط پر بہت سے مہرے چلتے پھرتے نظر آئے،یہ گمان کرتے ہوئے کہ وہ اپنی زمین کے حقیقی مالک ہیں۔خلیج کی جنگ نے اس کھیل کو بے نقاب کر دیا۔ معلوم ہوا کچھ پاس نہیں۔تیل اس سرزمین سے اگلتا ہے لیکن اہلِ مغرب کی مدد کے بغیر ایک بے فیض سیال مادہ ہے۔معیشت، دفاع، ہر چیز کی مہار کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
سب کچھ بچشمِ سر دیکھا لیکن حاصل کیا ہوا؟مسلمانوں کی قومی ریاستیں۔سعودی عصبیت، شامی عصبیت، ایرانی عصبیت اور غلبے کی بے لگام خواہش۔پندرہ دنوں سے فلسطین کی سرزمین پر آگ برس رہی ہے۔سب کو یہ خیال ہے کہ وہ اپنی عزت محفوظ کیے بیٹھے ہیں۔ آج بھی رات ڈھلتی ہے توعرب کی فضاؤں میں قرآن مجید کی آیات گونج اٹھتی ہیں۔ کیا عرب عربی نہیں جانتے؟ کیا اُنہیں معلوم نہیں کہ ان سے پہلے بھی کوئی منصبِ امامت پر فائز کیا گیا تھا؟ کیا اس قرآن میں یہ لکھا ہوا نہیںہے کہ انہیں اس منصب سے معزول کیا گیا اور کیوں؟کیا وہ فردِ جرم جزئیات کے ساتھ بقرہ اور آلِ عمران کی آیات میں محفوظ نہیں کرد ی گئی؟ کیا اس قرآن نے نہیں بتا یا کہ اللہ کے ساتھ جو عہدتوڑتا ہے،اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟ کیا عربوں نے اس عہد کو قائم رکھا ہے؟
جبریل ِ امین تو رمضان کی ان طاق راتوں میں اتریں گے لیکن ان سوالوں کا جواب لے کر نہیں۔یہ جواب وہ بہت پہلے لا چکے جو قرآن مجید کے صفحات میں محفوظ ہے۔ اب تو وہ کسی رات سلامتی کا پیغام لے کر آئے ہوں گے لیکن کس کے لیے؟کیا وہاں کوئی ہے جواس کا مستحق ہے؟تاریخ کا عجیب موڑ ہے۔بنی اسماعیل اور بنی اسرائیل آمنے سامنے ہیں۔قرآن مجید پڑھا جارہا ہے اور کوئی اس کی آیاتِ محکمات پرغور نہیں کرتا جویہ داستاں پہلے ہی بیان کر چکیں۔